اختلافِ رائے کا حکم دُوسرا ہے
س… مشہور عرب بزرگ جناب محمد بن عبدالوہاب کے بارے میں حضرات دیوبند کی اصل رائے کیا ہے؟ اور کیا وہ حقیقت حال کا سامنا کرنے سے متذبذب رہے؟
۱:…حضرت گنگوہی کی رائے اس کے بارے میں معتدل ہے۔
(فتاویٰ رشیدیہ)
۲:…حضرت علامہ انور شاہ کشمیری نے اسے خارجی کہا ہے۔
۳:…حضرت مدنی نے الشہاب الثاقب میں بہت سخت الفاظ میں تذکرہ کیا ہے اور اسے گمراہ قرار دیا ہے۔
۴:…ابھی حال ہی میں ایک کتابچہ “انکار حیات النبی۔ ایک پاکستانی فتنہ” میں (جو حضرت شیخ الحدیث کے غالباً نواسے مولانا محمد شاہد صاحب نے ترتیب دیا ہے اور اسے حضرت کے ایما پر لکھنا بتایا ہے) اسی محمد بن عبدالوہاب کو شیخ الاسلام والمسلمین لکھا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محمد بن عبدالوہاب کیا تھا؟ حضرت گنگوہی کی نظر میں داعیٴ توحید یا حضرت علامہ کشمیری کی نظر میں خارجی یا حضرت شیخ الحدیث کی رائے کے مطابق شیخ الاسلام۔
نیز یہ کہ اپنے شیخ و مرشد حضرت گنگوہی سے الگ رائے قائم کرنے کے بعد کیا حضرت مدنی اور حضرت علامہ کشمیری کو حضرت گنگوہی سے انتساب کا حق رہ جاتا ہے یا نہیں؟ یا حضرت شیخ الحدیث، حضرت مدنی سے مختلف رائے اختیار کرکے ان سے ارادت مندی کا دعویٰ کرسکتے ہیں یا نہیں؟ تسکین الصدور، طبع سوم (مرتبہ مولانا محمد سرفراز خان صاحب صفدر#) میں حضرات اخلاف دیوبند نے ایک اصول طے کیا ہے کہ بزرگان دیوبند کے خلاف رائے رکھنے والے کو ان سے انتساب کا حق نہیں اگرچہ اکابرین دیوبند ان کے استاد ہی کیوں نہ رہے ہوں۔ اس فتویٰ پر اوروں کے علاوہ آنجناب کے دستخط بھی ثبت ہیں۔
ج… کسی شخصیت کے بارے میں رائے قائم کرنے کا مدار اس کے بارے میں معلوم ہونے والے حالات پر ہے، جیسے حالات کسی کے سامنے آئے اس نے ویسی رائے قائم کرلی، اس کی نظیر جرح و تعدیل میں حضرات محدثین کا اختلاف ہے، اس اختلاف رائے میں آپ جیسا فہیم آدمی الجھ کر رہ جائے، خود محل تعجب ہے۔
اکابر دیوبند سے شرعی مسائل میں اختلاف کرنے والے کا حکم دُوسرا ہے، اور واقعات و حالات کی اطلاع کی بنا پر اختلاف رائے کا حکم دُوسرا ہے، دونوں کو یکساں سمجھنا صحیح نہیں۔
س… وقت ضائع کرنے کی معذرت مگر حضرت والا! ہم علماء کے خدام ہیں، اکابرین دیوبند کے نوکر، انہیں اپنا “اسوہ” خیال کرتے ہیں، لیکن “اسوہ” مجروح ہو تو ایسے ہی تلخ سوال و اشکال پیدا ہوتے ہیں، اس لئے تلخ نوائی کی بھی معذرت۔
ج… “اسوہ” کے مجروح ہونے کی بات میری سمجھ میں نہیں آئی، ویسے ذہن میں تلخی ہو تو ظاہر ہے کہ آدمی تلخ نوائی پر مجبور و معذور ہی ہوگا۔