بعض عوارض کی و جہ سے مفضول عبادت افضل سے بڑھ جاتی ہے
س… ایک کتاب میں ایک قول میری نظر سے گزرا، کتاب اور مصنف کا نام یاد نہیں، مفہوم یہ تھا کہ اشراق کی نماز کے لئے طلوع آفتاب تک بیٹھنے سے ہوا خوری اور صبح کی سیر زیادہ بہتر ہے۔ یہ بات اس نالائق پر بہت گراں گزری ہے، علامہ عبدالوہاب شعرانی نے طبقات الکبریٰ میں لکھا ہے کہ شیخ عبدالغفار قوسی اپنے بیٹے کے ساتھ کھانا کھارہے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ کی اتباع میں کدو کی قاشیں انگلی سے تلاش کرکرکے کھانے کے لئے نکال رہے تھے، انہوں نے بیٹے سے کہا کہ بیٹا یہ کدو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پسند تھا اور اس طرح آپ قاشیں تلاش کرکرکے کھاتے تھے۔ بیٹے نے کہا ابا! مجھے تو کدو بہت گندا لگتا ہے۔ یہ بات سن کر آپ کو اتنی غیرت آئی کہ اسی وقت تلوار سے بیٹے کا سر تن سے جدا کردیا۔ حالانکہ یہ کوئی شرعی خلاف ورزی نہیں تھی، حضور علیہ السلام کی عادت مبارکہ اختیار کرنا محبت کی بات ہے کوئی شرعی حکم نہیں۔
ایک طریقہ نفل عبادت کا جو حضور علیہ السلام سے متفقہ منقول ہے اس کے مقابلے میں اپنی ایک تجویز پیش کرنا اور اس کو افضل بتانا اس کی برائی صاحبان علم پر مخفی نہیں۔ یقینا یہ ملفوظ بہت سے علماء اور مشائخ نے بھی کہیں پڑھا ہوگا اور لکھنے والا بھی عالم فاضل ہوگا، کیا اچھا ہوتا اگر حاشیہ میں اس کی تاویل بھی لکھ دیتا تاکہ مجھ جیسے کم فہم لوگ کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوتے۔ اور تاویل کے بارے میں کیا عرض کروں ایک واقعہ سن لیجئے! حضرت عمر فاروق کے پوتے حضرت بلال سے روایت ہے کہ میرے والد عبداللہ ابن عمر نے یہ حدیث سنائی کہ “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ عورتوں کو مسجد میں جانے کے حق سے محروم مت کرو۔” میرے منہ سے بے اختیار یہ لفظ نکل گیا کہ “میں تو اپنی بیوی کو مسجد میں نہ جانے دوں گا۔” اس پر والد نے مجھے بڑی غضبناک نظروں سے دیکھا اور کرخت آواز میں کہا: “تجھ پر خدا کی لعنت میں تجھے رسول اللہ کا حکم سناتا ہوں اور تو اس کے مقابلے میں یہ کہتا ہے۔ (جامع البیان العلم وفضلہ علامہ ابن عبدالبر اندلسی) حالانکہ اس کی بڑی معقول تاویل ہوسکتی تھی اور اب بھی اس تاویل کی بنا پر عورتیں مسجد میں نہیں جاتیں۔ لیکن بات وہی غیرت ادب اور محبت و عقیدت کی ہے اور فقیر درویش تو سراپا نیاز وادب ہوتے ہیں جناب کا اس بارے میں کیا تأثر ہے؟
ج… آپ نے جتنے واقعات نقل کئے ہیں وہ غیرمتعلق ہیں، اس قول کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک عبادت جو کہ منصوص ہے اور اس کی بڑی فضیلت ہے لیکن بعض عوارض کی وجہ سے دوسری چیز اس سے بڑھ جاتی ہے، اس میں نہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ارشاد سے معارضہ ہے کہ اس پر آنجناب کے ذکر کردہ واقعات کو لاگو کیا جائے اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی قول کا رد کرنا ہے اور یہ اصول ہے کہ بعض اوقات مفضول عبادت عوارض کی وجہ سے افضل سے بڑھ جاتی ہے اور شریعت میں اس کی بے شمار نظائر موجود ہیں۔