عورت کے لئے کسبِ معاش
س… مورخہ ۲۰ جنوری ۱۹۹۲ء روزنامہ جنگ میں محترم بیگم سلمیٰ احمد صاحبہ نے کراچی اسٹاک ایکسچینج کے نو منتخب عہدیداران کے استقبالیہ میں تقریر کرتے ہوئے سورہٴ نسأ کی آیت: ۳۱ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ “عورت جو کماتی ہے وہ اس کا حصہ ہے اور مرد جو کماتا ہے وہ اس کا حصہ ہے” لہٰذا عورتوں کو کاروبار کرنے کی اجازت ہے، جب کہ قرآن مجید میں اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: “کہ مردوں کے لئے ان کے اعمال کا حصہ ثابت ہے اور عورتوں کے لئے ان کے اعمال کا حصہ ثابت ہے۔”
قرآن مجید کے ترجمہ سے کہیں یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورتیں کاروبار اعلانیہ کرسکتی ہیں؟ جب کہ ہر شخص کی طرح عورتوں کو بھی ان کے اعمال کا حصہ ملے گا اور مردوں کو بھی ان کے اعمال کا حصہ ملے گا، تو محترمہ بیگم سلمیٰ احمد صاحبہ نے کاروبار کا مفہوم کہاں سے نکال لیا، اس سے قبل جناب مولانا طاہر القادری صاحب نے بھی مرحوم جنرل محمد ضیاء الحق صاحب کے ریفرنڈم کے زمانہ میں خطاب کے دوران اسی قسم کا ترجمہ کیا تھا، کیونکہ مرحوم نے بھی اس زمانہ میں پاک پتن شریف میں تقریر کرتے ہوئے خواتین کے اجتماع سے خطاب کے دوران یہی ترجمہ کیا تھا کہ عورت کاروبار کرسکتی ہے، جس کی تائید کرنے پر مولانا محترم کو مجلس شوریٰ کا ممبر نامزد کیا گیا۔
لہٰذا آپ سے مودبانہ گزارش ہے کہ آپ براہ کرم مندرجہ بالا آیت مبارکہ کا صحیح ترجمہ شائع فرما کر امت مسلمہ کو کسی نئے تنازعہ سے بچائیں۔
ج… یہاں دو مسئلے الگ الگ ہیں۔ اوّل یہ کہ عورت کے لئے کسب معاش کا کیا حکم ہے؟ میں اس مسئلہ کی وضاحت پہلے بھی کرچکا ہوں کہ اسلام نے بنیادی طور پر کسبِ معاش کا بوجھ مرد کے کندھوں پر ڈالا ہے، اور خواتین کے خرچ اخراجات ان کے ذمہ ڈالے ہیں، خاص طور پر شادی کے بعد اس کے نان و نفقہ کی ذمہ داری مرد پر ڈالی گئی ہے، اور یہ ایک ایسی کھلی ہوئی حقیقت ہے، جس پر دلائل پیش کرنا کار عبث نظر آتا ہے، ابلیس مغرب نے صنف نازک پر جو سب سے بڑا ظلم کیا ہے وہ یہ کہ “مساوات مرد و زن” کا فسوں پھونک کر عورت کو کسب معاش کی گاڑی میں جوت کر مردوں کا بوجھ ان پر ڈال دیا، اور جن حضرات کا آپ نے تذکرہ کیا ہے وہ اسی مسلک کے نقیب اور داعی ہیں، اور اس کی وجہ سے جو جو خرابیاں مغربی معاشرہ میں رونما ہوچکی ہیں وہ ایک مسلمان معاشرہ کے لئے لائق رشک نہیں بلکہ لائق شرم ہیں۔
ہاں! بعض صورتوں میں بے چاری عورتوں کو مردوں کا یہ بوجھ اٹھانا پڑتا ہے، ایسی عورتوں کا کسب معاش پر مجبور ہونا ایک اضطراری حالت ہے، اور اپنی عفت و عصمت اور نسوانیت کی حفاظت کرتے ہوئے وہ کوئی شریفانہ ذریعہ معاش اختیار کریں تو اس کی اجازت ہے۔
دُوسرا مسئلہ بیگم صاحبہ کا قرآن کریم کی آیت سے استدلال ہے، اس کے بارے میں مختصراً یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ اس آیت شریفہ کا موصوفہ کے دعویٰ کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں بلکہ یہ آیت ان کے دعوے کی نفی کرتی ہے، کیونکہ اس آیت شریفہ کا نزول بعض خواتین کے اس سوال پر ہوا تھا کہ ان کو مردوں کے برابر کیوں نہیں رکھا گیا؟ مردوں کو میراث کا دوگنا حصہ ملتا ہے، چنانچہ حضرت مفتی محمد شفیع تفسیر معارف القرآن میں لکھتے ہیں:
“ما قبل کی آیتوں میں میراث کے احکام گزرے ہیں، ان میں یہ بھی بتلایا جا چکا ہے کہ میت کے ورثأ میں اگر مرد اور عورت ہو، اور میت کی طرف رشتہ کی نسبت ایک ہی طرح کی ہو تو مرد کو عورت کی بہ نسبت دوگنا حصہ ملے گا، اسی طرح کے اور فضائل بھی مردوں کے ثابت ہیں، حضرت ام سلمہ نے اس پر ایک دفعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہم کو آدھی میراث ملتی ہے، اور بھی فلاں فلاں فرق ہم میں اور مردوں میں ہیں۔
مقصد اعتراض کرنا نہیں تھا بلکہ ان کی تمنا تھی کہ اگر ہم لوگ بھی مرد ہوتے تو مردوں کے فضائل ہمیں بھی حاصل ہوجاتے، بعض عورتوں نے یہ تمنا کی کہ کاش ہم مرد ہوتے تو مردوں کی طرح جہاد میں حصہ لیتے اور جہاد کی فضیلت ہمیں حاصل ہوجاتی۔
ایک عورت نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا مرد کو میراث میں دوگنا حصہ ملتا ہے اور عورت کی شہادت بھی مرد سے نصف ہے تو کیا عبادات و اعمال میں بھی ہم کو نصف ہی ثواب ملے گا؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں دونوں قولوں کا جواب دیا گیا ہے، حضرت ام سلمہ کے قول کا جواب :”وَلَا تَتَمَنَّوْا” سے دیا گیا اور اس عورت کے قول کا جواب “لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ” سے دیا گیا۔ (تفسیر معارف القرآن ص:۳۸۸، ج:۲)
خلاصہ یہ کہ آیت شریفہ میں بتایا گیا کہ مرد و عورت کے خصائص الگ الگ اور ان کی سعی و عمل کا میدان جدا جدا ہے، عورتوں کو مردوں کی اور مردوں کو عورتوں کی ریس کیا؟ اس کی تمنا بھی نہیں کرنی چاہئے، قیامت کے دن ہر شخص کو اپنی سعی و عمل کا پھل ملے گا، مردوں کو ان کی محنت کا، اور عورتوں کو ان کی محنت کا، مرد ہو یا عورت کسی کو اس کی محنت کے ثمرات سے محروم نہیں کیا جائے گا۔
بیگم صاحبہ نے جو مضمون اس آیت شریفہ سے اخذ کرنا چاہا ہے وہ یہ ہے کہ مردوں کی دُنیوی کمائی ان کو ملے گی، عورتوں کا اس میں کوئی حق نہیں، اور عورتوں کی محنت مزدوری ان کی ہے، مردوں کا اس میں کوئی حق نہیں، اگر یہ مضمون صحیح ہوتا تو دنیا کی کوئی عدالت بیوی کے نان و نفقہ کی ذمہ داری مرد پر نہ ڈالا کرتی، اور عدالتوں میں نان نفقہ کے جتنے کیس دائر ہیں ان سب کو یہ کہہ کر خارج کردینا چاہئے کہ بیگم صاحبہ کی “تفسیر” کے مطابق مرد کی کمائی مرد کے لئے ہے، عورت کا اس میں کوئی حق نہیں، استغفراللہ! تعجب ہے کہ ایسی کھلی بات بھی لوگوں کی عقل میں نہیں آتی۔