“اَلصَّحَابَةُ کُلُّہُمْ عَدُوْلٌ” کی تشریح
س… “الصحابة کلہم عدول” ، “أصحابی کالنجوم” کیا یہ احادیث کے اقوال ہیں؟ لیکن حدیث تو مستند ہے کہ: “لوگ حوض کوثر پر آئیں گے، فرشتے انہیں روکیں گے، میں کہوں گا یہ میرے اصحاب ہیں، جواب ملے گا تمہیں نہیں معلوم انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا؟” اس حدیث شریف سے تمام صحابہ کا عدول ہونا بظاہر ثابت نہیں ہوتا(یہ ایک اشکال ہے صرف)، اسی طرح یہ حدیث شریف کہ جس صحابی کی اقتداء کروگے ہدایت پاوٴگے۔ تو اگر کوئی کہے کہ میں تو عمرو بن العاص اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہما کی اقتداء کرتا ہوں اور معاملات میں انصاف نہ کرے اور حوالہ دے ان کے واقعات کا مثلاً عمرو بن العاص نے ابو موسیٰ اشعری کے ساتھ جو کیا جب کہ دونوں صفین میں حکم بنائے گئے، تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقتداء جس سے ہدایت ملے وہ صحابہ کرام کے عقیدے اور رسوخِ ایمان کی ہے جس کی مثال مشکل ہے، ان کے اعمال عادات و اطوار کی اقتداء مراد نہیں؟
ج… “أصحابی کالنجوم” کا مضمون صحیح ہے، مگر الفاظ حدیث کے نہیں۔ صحابہ کرام کے افعال دو قسم کے ہیں، بعض تو اتباع نصوص کی وجہ سے اور بعض بنا بر اجتہاد۔ پھر اجتہادی امور بھی دو قسم کے ہیں، ایک وہ جن پر کسی ایک فریق کا صواب یا خطا پر ہونا ظن غالب سے متعین نہیں ہوا، ایسے اجتہادی امور میں مجتہد کے لئے کسی ایک قول کا اختیار کرلینا صحیح ہے جو مجتہد کے نزدیک ترجیح رکھتا ہو، اور دُوسری قسم وہ ہے کہ ایک فریق کا خطا پر ہونا ظن غالب سے ثابت ہوجائے، ایسے اقوال و افعال میں مخطی کا اتباع نہیں کیا جائے گا، البتہ ان کو اپنے اجتہاد کی بنا پر معذور بلکہ ماجور قرار دیا جائے گا، اس لئے: “بایھم اقتدیتم اھتدیتم” کو اس شرط کے ساتھ مشروط کیا جائے گا کہ ان کا خطا پر ہونا غلبہ ظن سے ثابت نہ ہو، البتہ یوں کہا جائے گا کہ انہوں نے بھی اتباع ہدایت کا قصد کیا لہٰذا ان پر ملامت نہیں۔ جہاں تک “الصحابة کلہم عدول” کا تعلق ہے یہ بھی حدیث نہیں بلکہ اہل سنت کا قاعدہ مسلّمہ ہے اور ان اکابر کے “کلہم عدول” ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ معصوم تھے، جس ہدایت کو ہم صحابہ کرام سے منسوب کرتے ہیں وہ دو چیزیں ہیں: ایک یہ کہ وہ کبائر سے پرہیز کرتے تھے اور ان کے نفوس طیبہ میں اجتناب عن الکبائر کا ملکہ راسخ ہوچکا تھا، دوم یہ کہ اگر کسی سے بتقاضائے بشریت احیاناً کسی کبیرہ کا شاذ و نادر کبھی صدور ہوا تو انہوں نے فوراً اس سے توبہ کرلی اور بہ برکت صحبت نبوی ان کے نفوس اس گناہ کے رنگ سے رنگین نہیں ہوئے اور : “التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ” ارشادِ نبوی ہے اس لئے ان ارتکاب کبیرہ کے باوجود توبہ کی وجہ سے عادل رہے، فاسق نہیں ہوئے، حضرت نانوتوی اور دیگر اکابر نے اس پر طویل گفتگو فرمائی ہے میں نے خلاصہ لکھ دیا جو حل اشکال کے لئے اِن شاء اللہ کافی ہے۔