ائمہ اجتہاد واقعی شارع اور مقنن نہیں
س… ”اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللهِ۔“ اس کے مصداق تو ہم سب مقلدین بھی معلوم ہوتے ہیں کیونکہ جو ہمارے مفتی حرام و حلال بتاتے ہیں ہم بھی اس پر عمل کرتے ہیں، ہم خود نہیں جانتے وہ صحیح کہہ رہے ہیں یا غلط؟ خصوصاً اس آیت کے مصداق وہ غالی مریدین بھی ہیں جو اپنے پیر کا حکم کسی صورت نہیں ٹالتے، چاہے وہ صریح خلاف شریعت ہو، ان کے غلط اقوال کی دور ازکار تاویلوں سے صحت ثابت کرتے ہیں۔
ج… اگر کوئی احمق ائمہ اجتہاد رحمہم اللہ کو واقعتا شارع اور مقنن سمجھتا ہے تو کوئی شک نہیں کہ وہ اس آیت کریمہ کا مصداق ہے، لیکن اہل اصول کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ”القیاس مظہر لا مثبت۔“ یعنی ائمہ اجتہاد کا قیاس و اجتہاد احکام شریعہ کا مثبت نہیں بلکہ ”مظہرمن الکتاب والسنّة“ ہے، جو احکام صراحتاً کتاب و سنت میں مذکور نہیں اور جن کے استخراج اور استنباط تک ہم عامیوں کے علم و فہم کی رسائی نہیں، ائمہ اجتہاد کا قیاس و استنباط ان احکام کو کتاب و سنت سے نکال لاتا ہے، تقلید کی ضرورت اس لئے ہے کہ ہم لوگوں کا فہم کتاب و سنت کے ان احکام تک نہیں پہنچتا، پس اتباع تو دراصل کتاب و سنت کی ہے، ائمہ اجتہاد کا دامن پکڑنے کی ضرورت اس لئے ہوئی کہ ہم اتباع کتاب ہدیٰ کے بجائے اتباعِ ہویٰ کے گڑھے میں نہ گر جائیں اور اکابر مشائخ کی لغزشوں کی تاویل اس لئے ہے کہ ان کے ساتھ حسن ظن قائم رہے، اس لئے نہیں کہ ان کی ان لغزشوں کی بھی اقتداء کی جائے۔