اعلانِ وفات کیسے سنت ہے؟
س… آپ کا فتویٰ پڑھ کر تسلی نہیں ہوئی آج کل ہمارے محلے میں یہ مسئلہ بہت ہی زیر بحث ہے، اس لئے اس کا فوٹو اسٹیٹ کرکے آپ کو دوبارہ بھیج رہا ہوں تاکہ تفصیل سے دلیل سے جواب دے کر مشکور فرمائیں، موت کی اطلاع کرنا سنت لکھا ہے تو مہربانی کرکے اس کی دلیل ضرور لکھئے گا۔
س…۱: زمانہٴ جاہلیت میں جو دستور تھا اعلان کا، تو وہ کن الفاظ سے اعلان کرتے تھے؟
س…۲: مسجد کے اندر اذان دینا کیسا ہے؟ اس کا جواب شاید بھول گیا، مہربانی کرکے اس کا جواب جلدی دینا تاکہ اُلجھن دُور ہو، بہت بہت شکریہ۔
ج…
۱:…”فی الحدیث ان النبی صلی الله علیہوسلم نعی للناس النجاشی، اخرجہ الجماعة۔”
ترجمہ:…”حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہ نجاشی کی موت کا اعلان فرمایا تھا۔”
۲:…”وفی فتح الباری ( ۳، ۱۱۷): قال ابن العربی، یوٴخذ من مجموع الاحادیث ثلاث حالات، الاولیٰ اعلام الاہل والاصحاب واہل الصلاح فہذا سنة، الثانیة دعوة الحفل للمفاخرة فہٰذہ تکرہ، الثالثة الاعلام بنوع آخر کالنیاعة ونحو ذالک فہٰذا حرام، وقد نقلہ الشیخ فی الاوجز(۱، ۴۴۳) عن الفتح۔”
ترجمہ:…”فتح الباری میں ہے کہ ابن عربی فرماتے ہیں کہ موت کی اطلاع دینے کی تین حالتیں ہیں: ۱:-اہل و عیال اور احباب و اصحاب اور اہل صلاح کو اطلاع کرنا یہ تو سنت ہے۔ ۲:-فخر و مباحات کے لئے مجمع کثیر کو جمع کرنے کے لئے اعلان کرنا یہ مکروہ ہے۔ ۳:-لوگوں کو آہ و بکا اور بین کرنے کے لئے اطلاع کرنا اور بلانا یہ حرام ہے۔
۳:… “ وفی العلائیة: ولا بأس بنقلہ قبل دفنہ وبالاعلام بموتہ …الخ۔ وفی الشامیة: قولہ وبالاعلام بموتہ: ای اعلام بعضہم بعضاً، لیقضوا حقہ۔ ہدایة: وکرہ بعضہم ان ینادیٰ علیہ فی الازقة والاسواق، لانہ یشبہ نعی الجاہلیة، والاصح انہ لا یکرہ اذا لم یکن معہ تنویہ بذکرہ وتفخیم… فان نعی الجاہلیة ماکان فیہ قصد الدوران مع الضجیج والنیاحة وہو المراد بدعوی الجاہلیة فی قولہ صلی الله علیہ وسلم: “لیس منامن ضرب الخدود وشق الجیوب ودعا بدعوی الجاہلیة… شرح المنیة (شامی ۲۔۲۳۹) وکذا فی الفتح (۱۔ ۴۶۳)۔”
ترجمہ:…”اور علائیہ میں ہے کہ میّت کو دفن کرنے سے پہلے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے اور موت کے اعلان کرنے میں کوئی حرج نہیں…الخ۔ اور فتاویٰ شامی میں ہے: “اور اس کی موت کی اطلاع دینا یعنی ایک دوسرے کو اس لئے اطلاع دینا تاکہ اس کا حق ادا کرسکیں، (جائز ہے) اور بعض حضرات نے بازاروں اور گلیوں میں کسی کی موت کے اعلان کو مکروہ کہا ہے کیونکہ یہ زمانہ جاہلیت کی موت کی اطلاع دینے کے مشابہ ہے، صحیح یہ ہے کہ یہ مکروہ نہیں ہے، جب کہ اس اعلان کے ساتھ زمانہ جاہلیت کا سا نوحہ اور مردے کی بڑائی کا تذکرہ نہ ہو․․․․․ پس بے شک جاہلیت کی سی موت کی اطلاع وہ ہے کہ جس میں دل کی تنگی اور بین کا تذکرہ ہو، اور یہی مقصود ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا کہ: وہ ہم میں سے نہیں ہے جس نے منہ کو پیٹا اور گریبان پھاڑے اور جاہلیت کے دعوے کئے۔”
ج…۲: مسجد میں اذان کہنا مکروہِ تنزیہی ہے، البتہ جمعہ کی دُوسری اذان کا معمول منبر کے سامنے چلا آتا ہے۔