اُدھار اور نقد خریداری کے ضابطے
س… آج کل کاروبار میں ایک طریقہ رائج ہوچکا ہے، جس کو ”ڈپو“ کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے، یعنی ایک بیوپاری کے پاس مال ہے، وہ فروخت کرتا ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ بازار کا نرخ بیس روپے من ہے، ایک مدّتِ مقرّرہ پر رقم ادا کرنے کی صورت میں نرخ پچّیس روپے من لگایا جاتا ہے، مدّت کی کمی بیشی کی صورت میں رقم کی بھی کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ سودا طے ہوجانے پر مالِ مذکورہ مشتری (خریدار) کے حوالے کردیا جاتا ہے، کیا یہ صورت سود میں آتی ہے یا کہ نہیں؟ جبکہ ایک مفتی صاحب نے اس کو جائز قرار دیا ہے۔
بندہ نے ایک تحریر دیکھی ہے جس سے مزید اِشکال پیدا ہو رہا ہے، جو کہ نقل ہے: ”حضرت سفیان کہتے ہیں کہ میں نے ابنِ عمر سے پوچھا: ایک شخص کو وقتِ مقرّرہ پر میرا اُدھار ادا کرنا ہے، میں اس سے کہتا ہوں کہ: تم مجھے مقرّرہ وقت کے بجائے آج دو تو میں کل رقم میں سے تم کو کچھ چھوڑتا ہوں۔ ابنِ عمر نے فرمایا: یہ سود ہے۔“ زید بن ثابت سے بھی اسی کی نہی مروی ہے، سعید بن جبیر، شعبی، حکم، ہمارے (احناف) اور جملہ فقہاء کا یہی قول ہے، البتہ ابنِ عباس اور ابراہیم نخعی نے کہا: اس میں کوئی حرج نہیں۔“
ج… اگر قیمت نقد ادا کردی جائے اور چیز مہینے دو مہینے کی میعاد پر دینی طے کی جائے تو یہ ”بیعِ سلم“ کہلاتی ہے، اور یہ چند شرطوں کے ساتھ جائز ہے:
۱: جنس معلوم ہو۔ ۲: نوع معلوم ہو، مثلاً: فلاں قسم کی گندم ہوگی۔ ۳:وصف معلوم ہو، مثلاً اعلیٰ درجے کی ہو یا درمیانی درجے کی یا گھٹیا درجے کی۔ ۴:مقدار معلوم ہو۔ ۵:وصولی کی تاریخ مقرّر ہو۔ ۶: جو رقم ادا کی گئی ہے اس کی مقدار معلوم ہو۔ ۷:اور یہ طے ہوجائے کہ یہ چیز فلاں جگہ سے خریدار اُٹھائے گا۔
نقد ارزاں خرید کر گراں قیمت پر اُدھار فروخت کرنا
س… زید کے پاس مال ہے، بکر اس کا خریدار ہے، زید کو پیسے کی ضرورت ہے، عمرو کے پاس رقم نہیں ہے، بکر کے پاس فالتو رقم پڑی ہوئی ہے۔ بکر، زید سے مال بازار کے نرخ سے کم پر خریدتا ہے اور زید کو چونکہ ضرورت ہے اس لئے وہ بھی دے دیتا ہے، اس کے بعد بکر، عمرو کے ہاتھ وہ مال بازار کے نرخ سے زائد پر بیچتا ہے، کیونکہ عمرو یہ مال اُدھار پر خریدتا ہے، بکر کا یہ معاملہ کیا شرعی حیثیت رکھتا ہے؟ اس میں یہ بات واضح رہے کہ بکر، زید سے یہ مال صرف اس لئے خرید رہا ہے کہ اس کے پاس اس مال کا گاہک عمرو پہلے سے موجود ہے، اگر عمرو موجود نہ ہو تو بکر سے زید یہ معاملہ نہ کرتا، کیونکہ جس مال کا سودا ہوا ہے وہ بکر کی لائن ہی نہیں ہے۔
ج… یہاں دو مسئلے ہیں۔ ایک کسی کی ناداری اور مجبوری سے فائدہ اُٹھاکر کم داموں پر چیز خریدنا اگرچہ قانوناً جائز ہے، مگر اخلاق و مروّت کے خلاف ہونے کی وجہ سے مکروہ ہے۔ دُوسرا مسئلہ اُدھار میں گراں قیمت پر دینا ہے، یہ جائز ہے، مگر نقد اور اُدھار کے درمیان قیمت کا فرق مناسب ہونا چاہئے۔
نقد ایک چیز کم قیمت پر اور اُدھار زیادہ پر بیچنا جائز ہے
س… ہمارے یہاں لوگ قسطوں کا کاروبار کرتے ہیں، جیسے سائیکل، ٹی وی، فریج، ٹیپ ریکارڈر وغیرہ، قسطوں پر دیتے ہیں، ایسے کہ اگر ٹیپ ریکارڈر کی مارکیٹ میں مالیت دو ہزار کی ہے تو یہ قسطوں پر ڈھائی ہزار کی دیں گے۔ سیدھی بات یہ ہے کہ وہ ہم کو دو ہزار دیں گے اور ہم سے ڈھائی ہزار لیں گے، جبکہ آپ نے قسطوں پر لی ہے۔ برائے مہربانی ہم کو بتائیں کہ یہ چیز سود کے زُمرے میں تو نہیں آتی؟ اگر آتی ہے تو آپ بتائیں کہ اس کو رفع کیسے کیا جائے؟
ج… ایک چیز نقد کم قیمت پر فروخت کرنا اور اُدھار زیادہ قیمت پر دینا جائز ہے، یہ چیز سود کے زُمرے میں نہیں آتی۔ البتہ فروخت کرتے وقت نقد یا اُدھار پر فروخت کرنے اور قیمت اور قسطوں کی تعیین ضروری ہے۔
ایک چیز نقد کم پر، اور اُدھار زیادہ پر بیچنا
س… ماہنامہ ”اقرأ“ ڈائجسٹ میں ایک مسئلہ لکھا ہوا ہے کہ ایک شخص ریڈیو فروخت کرتا ہے، اور کہتا ہے کہ: ”یہ ریڈیو اگر نقد لیتے ہو تو ۵۰۰ روپے کا، اور اگر اُدھار لیتے ہو تو ۶۰۰روپے کا، اگرچہ یہاں پر ۱۰۰ روپیہ بڑھ گئے لیکن یہ سود نہیں ہے، اس لئے کہ اس پس منظر میں چیز ہے۔“ مندرجہ بالا مسئلے سے معلوم ہوا کہ بائع مشتری کے ساتھ نقد اور اُدھار کی شرط پر قیمت میں کمی بیشی کرسکتا ہے۔ جہاں تک ہمیں معلوم ہے اور اب تک جو کچھ ہم سمجھتے رہے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ بیع جائز نہیں ہے، اور ”بہشتی زیور“ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ مسئلہ ”بہشتی زیور“ کا یہ ہے کہ یہ حکم اس وقت ہے جبکہ خریدار سے اوّل پوچھ لیا ہو کہ نقد لوگے یا اُدھار، اگر اس نے نقد کہا تو بیس سیر دے دئیے، اور اُدھار کہا تو پندرہ سیر دے دئیے، اور اگر معاملہ اس طرح کیا کہ خریدار سے یوں کہا کہ اگر نقد لوگے تو ایک روپے کے بیس سیر، اور اُدھار لوگے تو پندرہ سیر ہوں گے، یہ جائز نہیں ہے۔
ج… ”بہشتی زیور“ کا مسئلہ صحیح ہے، مگر یہ اس صورت میں ہے کہ مجلسِ عقد میں یہ طے نہ ہوجائے کہ یہ چیز نقد لوگے تو اتنے کی ہے اور اُدھار لوگے تو اتنے کی، اور پھر مجلسِ عقد میں ایک صورت طے ہوجائے تو جائز ہے۔ مفتی صاحب نے جو مسئلہ لکھا ہے وہ اسی صورت سے متعلق ہے۔
اُدھار بیچنے پر زیادہ رقم لینے اور سود لینے میں فرق
س… آپ نے ایک سائل کے جواب میں لکھا تھا کہ ایک چیز نقد ۱۰ روپے کی اور اُدھار ۱۵ روپے کی بیچنا جائز ہے، یہ کیسے جائز ہوگیا؟ یہ تو سراسر سود ہے، سود میں بھی تو اسی طرح ہوتا ہے کہ آپ کسی سے ۱۰ روپے لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک مہینے کے بعد ۱۵ روپے دُوں گا۔ اس طرح تو یہ بھی سود ہوا کہ ایک چیز کو نقد ۱۰ روپے کا، اُدھار ۱۵ روپے کا دیتے ہیں، اگر وقت کی وجہ سے دُکان دار ۵ روپے زیادہ لیتا ہے تو سودخوروں کی بھی یہی دلیل ہے کہ ہم اپنا پیسہ پھنساتے ہیں۔
ج… کسی کی ضرورت سے ناجائز فائدہ اُٹھانا الگ چیز ہے، اور سود الگ چیز ہے۔ روپے کے بدلے روپیہ جب زیادہ لیا جائے گا تو یہ ”سود“ ہوگا۔ لیکن چیز کے بدلے میں روپیہ زیادہ بھی لیا جاتا ہے اور کم بھی۔ زیادہ لینے کو ”گراں فروشی“ کہتے ہیں مگر یہ سود نہیں۔ اسی طرح اگر نقد اور اُدھار کی قیمت کا فرق ہو تو یہ بھی سود نہیں۔
اُدھار چیز کی قیمت وقفہ وقفہ پر بڑھانا جائز نہیں
س… ہمارے ہاں کپڑا مارکیٹ میں دھاگے کا کام ہوتا ہے، اب ہم اس طرح کرتے ہیں کہ دھاگہ جو کہ پونڈ کے حساب سے فروخت ہوتا ہے، اب فرض کریں کہ دھاگے کی قیمت ۳۵ روپے فی پونڈ ہے، ہمارے یہاں مارکیٹ کا طریقہ یہ ہے کہ اگر دھاگہ نقد لوگے تو ۳۵ روپے فی پونڈ ہوگا، اور اگر یہی دھاگہ ایک مہینے کا اُدھار لیں گے تو یہ دھاگہ ۳۶ روپے کا ہوگا، اور دو مہینے کا اُدھار لیں گے تو یہ دھاگہ ۳۷ روپے کا ہوگا۔ گویا ایک پونڈ پر ایک مہینے کا ایک روپیہ اُوپر لیتے ہیں، اب اگر کوئی شخص دھاگہ دو مہینے اُدھار پر لیتا ہے اور دو روپے پونڈ کے اُوپر زیادہ دیتا ہے تو اگر اس شخص کے پاس ڈیڑھ مہینے میں روپے آجاتے ہیں اور وہ اسے جس سے اس نے دھاگہ دو مہینے اُدھار پر لیا ہے، یہ کہے کہ: ”میرے پاس روپے آگئے ہیں، تم اس طرح کہ ڈیڑھ روپے کے حساب سے پونڈ پر روپے لے لو، یعنی اگر ۳۵ روپے کا ہے تو ۳۶ روپے ۵۰ پیسے پونڈ کے حساب سے روپے لے لو“ تو کیا یہ طریقہ صحیح ہے یا نہیں؟ جبکہ دو روپے پونڈ کا دو مہینے سے سودا طے ہوا تھا، اب وہ ۱۵ دن پہلے روپے دے رہا ہے، ۵۰ پیسے فی پونڈ پر کم کے حساب سے۔ دُوسری صورت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایک مہینے کا اُدھار لے ایک روپیہ فی پونڈ کے حساب سے، اب ایک مہینہ ہوگیا ہے اور اب اس شخص کے پاس روپے نہیں آئے اب وہ اگر یہ کہے کہ: ”تم اس طرح کرو کہ دو مہینے کا اُدھار کرلو اور ایک روپیہ پونڈ پر زیادہ لے لو، تو یہ طریقہ سود کے زُمرے میں تو نہیں آتا ہے؟ اور یہ طریقہ جائز ہے یا ناجائز ہے؟ برائے مہربانی دونوں صورتوں کا جواب شریعت کی رُو سے دیں۔
ج… نقد اور اُدھار قیمت کا فرق تو جائز ہے، مگر وقت متعین ہونا چاہئے، مثلاً: دو مہینے کے بعد ادا کریں گے، اور اس کی قیمت یہ ہوگی۔ فی مہینہ ایک روپیہ زائد کے ساتھ سودا کرنا جائز نہیں۔
اُدھار فروخت کرنے پر زیادہ قیمت وصولنا
س… کسی اناج کے بھاوٴ بازار کے مطابق آج ۲۰ روپے من ہیں، اور دُکان دار نقد لینے والے گاہک کو ۲۰ روپے من فروخت کرتا ہے، اور وہی دُکان دار اُدھار لینے والے کو ۲۵ روپے من فروخت کرتا ہے، اُدھار لینے والا مجبوری کی وجہ سے ایسا کرنے پر مجبور ہے اور لیتا ہے، اس مسئلے پر اسلامی قانون سے کیا حکم ہے؟ ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟
ج… اس طرح فروخت کرنا تو جائز ہے، مگر کسی کی مجبوری سے فائدہ نہیں اُٹھانا چاہئے۔