عورت کی حکمرانی
س… روزنامہ جنگ کراچی کے اسلامی صفحہ پر گزشتہ تین مسلسل جمعة المبارک (مورخہ ۲۷ جنوری، ۳ فروری اور ۱۰فروری ۱۹۸۹ء) سے ایک تحقیقی مقالہ بعنوان عورت بحیثیت حکمران از جناب مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب شائع ہورہا ہے۔
مفتی صاحب نے ان مقالات میں قرآن حکیم، احادیث مبارکہ، ائمہ کرام، فقہا اور علماء کے اقوال اور حوالوں سے یہ قطعی ثابت کیا ہے کہ ایک اسلامی مملکت کی سربراہ “عورت” نہیں ہوسکتی۔
سیاسی وابستگی سے قطع نظر بحیثیت ایک مسلمان میں خالصتاً اسلامی نقطہٴ نگاہ سے آپ سے یہ سوال کرنے کی جسارت کررہا ہوں کہ موجودہ دور کی حکمران چونکہ ایک خاتون ہے، جبکہ قرآن، حدیث، علماء اور فقہاء نے اس کی ممانعت اور مخالفت کی ہے، لیکن اس کے باوجود اہلِ پاکستان نے مشترکہ طور پر ایک عورت کو حکمران بنا کر قرآن اور حدیث کے واضح احکامات سے روگردانی کی ہے۔ کیا پوری قوم ان واضح احکامات سے روگردانی پر گناہ گار ہوئی اور کیا پوری قوم کو اس کا عذاب بھگتنا ہوگا․․․؟ نیز ہمارے موجودہ اسلامی شعائر اور فرائض پر تو اس کا کوئی اثر نہیں پڑرہا ہے؟
ج… حق تعالیٰ شانہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماعِ اُمت کے دو ٹوک اور قطعی فیصلہ اور اس کی کھلی مخالفت کے بعد کیا ابھی آپ کو گنہ گاری میں شک ہے؟ براہ راست گناہ تو ان لوگوں پر ہے جنھوں نے ایک خاتون کو حکومت کی سربراہ بنایا، لیکن اس کا وبال پوری قوم پر پڑے گا، مستدرک حاکم کی روایت میں بسند صحیح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے:
“ہلکت الرجال حین اطاعت النساء۔”
(مستدرک حاکم ج:۴ ص:۲۹۱)
ترجمہ:…”ہلاک ہوگئے مرد جب انہوں نے اطاعت کی عورتوں کی۔”
اب یہ تباہی اور ہلاکت پاکستان پر کن کن شکلوں میں نازل ہوتی ہے؟ اس کا انتظار کیجئے․․․!